Followers

Friday, April 10, 2020

کورونا وائرس: چین میں جنگلی جانوروں کے گوشت پر پابندی کیوں قابل عمل نہیں

جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ چین کی جانب سے جنگلی جانوروں کی تجارت پر مستقل پابندی مسئلے کا مکمل حل نہیں ہے کیونکہ وہاں اب بھی چینی ادویات، کپڑوں اور زیورات کے لیے ان کی تجارت کی اجازت ہے                                          
                                                                                                                                             ُ مزید یہ بھی کہنا تھا کہ پابندی میں یہ رعایتقانونی ضابطوں سے بچنے کا ایک طریقہ ہے جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ جنگلی جانوروں کا گوشت بیچنا پھر بھی ممکن ہو گا۔

یہ پابندی فروری میں اُس وقت عائد کی گئی جب ان شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا کہچین کے علاقے ووہان میں گوشت کی ایک مارکیٹ میں فروخت ہونے والے جنگلی جانور کے گوشتسے کورونا وائرس کی وبا پھوٹی۔

خدشات کا اظہارکیا جا رہا ہے کہ پابندی میں رعایت کی وجہ سے بلیک مارکیٹ میں جانوروں کا گوشت فروخت ہوتا رہے گا۔چین میں جنگلی جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ادارے برڈنگ بیجنگ کے بانی ٹیری ٹاؤنزہینڈ کہتے ہیں کہ گو کہ جنگلی جانوروں سے بنی مصنوعات کے طبی فوائد سائنسی طریقوں سے ٽابت نہیں ہوئے ہیں مگر لوگوں کو اس طریقہ علاجپرغیر معمولی اعتقاد ہے۔

انھوں نے مزید یہ بھی کہا کہ میں ایک بہت پڑھے لکھے خاندان کو جانتا ہوں جن کے دو بچے ہیں، ایک کی اولاد نہیں ہو رہی تھیاور دوسرا جنگلی جانوروں کی حفاظتکا سرگرم کارکن تھا۔

گو کہ انھیں روایتی طریقہ علاج کے سائنس کی بنیاد پر شواہد موجود نہ ہونے کے بارے میں بخوبی علم تھا مگر پھر بھی جس بچےکےگھر اولاد نہیں ہو رہی تھی اُس نے اولاد حاصل کرنے کی خاطر پینگولن کے خولکا استعمال کیا کیونکہ وہلوگ باقی طریقے آزما چکے تھے۔

روایتی طریقہ علاج کی ڈیمانڈ کی وجہ سے چین میں پینگولن ناپید ہو چکے ہیں اور دنیا میں سب سے زیادہسمگل کیے جاتے ہیں۔


تحقیق سے یہ باتبھی سامنے آئی ہے کہ پینگولن پر ایسے وائرسموجود ہوتے ہیں جو کووڈ 19 کی وجہ بننے والے وائرس سے مشابہت رکھتے ہیں۔

سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں یہ بات واضحکر دی گئی ہے کہ اس جانور کے موجودہ عالمگیر وبا سے تعلق کی تصدیق نہیں ہوئی ہے
جنگلی جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے کہتے ہیں کہ چین میں 30 ہزار کے قریب ریچھ پالے جا رہے ہیں۔ انھیں چھوٹے چھوٹے پنجروں میں رکھا جاتا ہے اور ان کے پتے سے ایک میٹل ٹیوب کے ذریعے مائع نکالا جاتا ہے جس سے انھیں سخت تکلیف اور انفیکشن ہو جاتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق ایک ہی زخم سے بار بار ٹیوب گھسا کر پتے سے مائع نکالا جاتا ہے۔نتیجتاً ریچھ انفیکشن اور دوسریطبی پیچیدگیوں کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔

جہاں چین میں نئی پابندی کے بعد بھی روایتی علاجکے لیے ریچھ کو اس کے پتے سے حاصل ہونے والے مادے کےلیےپالنے کی اجازت ہے، وہاں جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے سرگرم کارکنان رپورٹ کر رہے ہیں کہ غیر قانونی تاجر ان کے گوشت اور جسم کے دیگر حصے کھانے کے لیے لوگوں کو فراہم کر رہے ہیں۔

ہلکے دم کیے گئے ریچھ کے پائےکا شمار چین کے کچھ علاقوں میں نفیس کھانوں میں ہوتا ہے۔

چائنیز اکیڈمی آف انجینیئرنگ کی تحقیق کے مطابق جنگلی حیات کی صنعت سے ایککروڑ چالیس لاکھ افراد کو نوکریاں ملی ہیں اور ان کے تحمینے کے مطابق اس کاروبار کا کُل حجم 70 ارب ڈالر کے قریب ہے۔

مگر رائے عامہ کے ایک حالیہ جائزے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کورونا وائرس کی عالمگیر وباکے نتیجے میں چین میں شہری جنگلی حیات کھانے کے خلاف ہورہے ہیں۔

اس جائزے میں ایک لاکھ ایک ہزار سے زیادہ افرادنے اپنی رائے دی اور 97 فیصد نے کہا کہ وہ جنگلی حیات کی مصنوعات کے استعمال کے خلاف ہیں اور وہ حکومت کی جانب سے ان کی تجارت پر لگائی گئی پابندی کی تائید کرتے ہیں۔

پیکنگ یونیورسٹی اورسات مختلفاداروں کیجانب سے رائے عامہ کا یہ جائزہ چین کی ساریآبادی کی نمائندگی نہیں کرتا۔ یہ جائزہ آن لائن کیا گیا اور اس میں کٽرت سے نوجوانوں نے حصہ لیا۔ اس میں حصہ لینے والے ایک تھائی افراد کی عمر 19 سے 30 کے درمیان تھی

No comments:

Post a Comment